میرا وطن ایک اسلامی سرزمین

ملکوں کے درمیان تنازعات زمینی نوعیت کے ہوتے ہیں اگر ملکی حکومت کسی عالمی تحریک کا حصہ نہ ہو جیسے استعماری تحریکیں یا سوشلسٹ تحریکیں وغیرہ۔ ایران و پاکستان کے درمیان اول تو کوئی زمینی تنازعہ ہے ہی نہیں جس پر جنگ کی صورت پیدا ہو اور خدانخواستہ اگر ایسا کوئی تنازعہ جنم لے تو بین الاقوامی قوانین کے مطابق حل ہو سکتا ہے۔ دونوں برادر مسلمان ہمسایہ حکومتوں میں تعاون و محبت کی فضا قائم رہنا دراصل اس بات کی نشانی ہے کہ دونوں معاشرے اسلامی معاشرے ہیں اور اسلامی محبت و امن پر یقین رکھنے والے ہیں۔  اگر ایرانی حکومت جارحیت کرے تو وہ خطا کار ہے اور کبھی بھی اسکا ساتھ نہیں دیا جا سکتا مگر یہ کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں یہ ثابت ہو جائے کہ ایران نے جارحیت کی ہے۔ ہم بطور پاکستانی کبھی بھی اپنے ملک اور سرزمین کا نقصان برداشت نہیں کریں گے اور یہ مسئلہ ایسا ہی ہے جیسے ایک اسلامی حکومت میں رہنے والے دو مسلمانوں کے درمیان جھگڑا ہو جائے اور اگر ایک شخص پر زیادتی ہو جائے تو عدالت اسلامی میں پیشی کے وقت اس شخص کی آل اولاد و عزیز رشتے داروں کو اپنے باپ و عزیز کا ساتھ دینا چاہیے اور مصیبت کی گھڑی میں اس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ مجھے کیا پرواہ یہ دو مسلمانوں کے درمیان جھگڑا ہے خود حل کریں یا چونکہ دونوں مسلمان ہیں اس لئے میں نیوٹرل رہوں گا ۔ نہیں نہ نیوٹرل رہا جا سکتا ہے نہ بے پروا۔ لیکن یہاں ایک چیز اور ہے جو شیعہ اور غیر شیعہ دونوں یکسر نظرانداز کر جاتے ہیں وہ یہ کہ ایران میں فی زمانہ حکومت سے بالاتر ایک اور حقیقت بھی ہے جو ایران کی حدود میں قید نہیں اور اس بالاتر حقیقت کا نام انقلاب اسلامی و تحریک امامت و ولایت ہے۔
مسلمان آج مختلف اسلامی سرزمینوں میں تقسیم ہیں اور ہر مسلمان اپنے وطن کی نسبت حساس ہے، وطن سے محبت کرتا ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے مگر ان اسلامی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کیلئے وطن سے علیحدہ کچھ اور مشترکات بھی ہیں جو کسی وطن کی حدود میں قید نہیں جیسے قرآن ہے، رسول اکرم ص کی بات ہے، مزارات اہلبیت و قبور اصحاب رسول ہیں اور ایسے ہی ایک مشترکہ اثاثہ بیت اللہ ہے یہ مشترکات سب مسلمین  کیلئے مقدس و باعث عزت و احترام ہیں ۔ اگر کوئی مسلمان ملک خدانخواستہ کعبہ کو گرانے آئے تو تمام اسلامی ممالک اس کے خلاف کھڑے ہونگے حتی خود اس جارح ملک و سرزمین کے مسلمین بھی اپنی حکومت کے خلاف کھڑے ہونگے وہاں جارح ملک کی حکومت یہ دلیل نہیں لا سکتی کہ کیونکہ آپ مسلمین کا ملک کعبے پر چڑھائی کر رہا ہے تو ملک کا ساتھ دو ورنہ آپ حب الوطن نہیں رہو گے نہیں بلکہ یہاں حکومت پر تنقید کرنا ہی حُب الوطنی ہے کہ کیوں مسلمان ہوتے ہوئے اسلام کے مرکزی اثاثے  کو نقصان پہنچا رہے ہو!!! اگر آپ ایسی مسلمان حکومت میں ہوں جو کعبے پر چڑھائی کا اقدام کرنا چاہتا ہو تو آپ کا جواب یہ ہو گا؛ *نہیں جناب یہاں حب الوطنی و مکتب فکر میں کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ وطن سے محبت ہے اور اسی طرح ہے جیسے پہلے تھی مگر مکتب فکر یعنی میرا نظریہ حیات میری زندگی و موت کا مسئلہ ہے اور کعبہ  مجھ مسلم کیلئے اس نظریہ حیات کا ایک جزو ہے۔ میں بطور ایک مسلمان اپنے مکتبی اثاثے کو نقصان پہنچتا نہیں دیکھ سکتا اور مجھے اثاثے کو بچانے کیلئے اپنی حُب الوطنی قربان کرنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ حلب الوطنی کا ٹکراؤ نظریہ حیات کے ساتھ ہے ہی نہیں۔ میرا وطن ایک اسلامی سرزمین ہے، مسلمانوں کا معاشرہ ہے اور میرا یہ وطن میرے مکتب فکر کی تکفیر نہیں کرتا نہ ہی کعبے پر چڑھائی وطن نے کی ہے بلکہ میرے وطن کا نام لیکر کچھ اسلام دشمن قوتیں ہیں جو کعبے پر چڑھ دوڑی ہیں۔*
یہی جواب ہوگا آپ کا اور یہ ہی حقیقت پر مبنی جواب ہے۔ بس تحریک امامت و ولایت و تحریک انقلاب اسلامی ناب؛ مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت یعنی شیعان اہل بیت و فقہ جعفریہ کا مکتبی و آئیڈیالوجیکل اثاثہ ہے جسکو تشیع *انقلاب مہدویت* کے نام سے بھی ابلاغ کرتی ہے۔ ہمارا بچہ امام کا نام سن کر بولنا سیکھتا اور امامت کا نظریہ پڑھ کر جوان ہوتا ہے مہدویت اور انتظار ظہور اسلام (عالمی غلبہ اسلام) اس کی گُھٹی میں پڑا ہوتا ہے جس کیلئے وہ اپنی ساری زندگی بسر کردیتا ہے۔ وہ صدیوں سے امامت کو فقہا کی مرجعیت کی شکل جاری رکھے ہوئے ہے اور چالیس سال قبل اسی شیعہ آئیڈیالوجی نے فقیہ کی ولایت کی شکل میں اپنے مکتب کا زمینی سوشیو پولیٹیکل ماڈل دنیا کو بالعموم اور مسلمین کو بالخصوص پیش کیا ہے اور تمام دنیا کے مسلمین و غیر مسلمین کو ابلاغ و تشہیر کے ذریعے اس امامت و ولایت کے سوشیو پولیٹیکل قرآنی ماڈل کی طرف دعوت دی ہے بغیر اس کے کہ کسی اور اسلامی مکتب فکر یا ماڈل مثلا خلافت وغیرہ کی تحقیر و توہین کی جائے۔ ولایت و امامت کا مکتب فکر اپنی ساکھ میں چونکہ قرآنی آئیڈیالوجی ہے  اسلئے یہ مکتب فکر خود کو عنوان اسلام کے طور اسرائیل کے مقابلے میں اترا ہو۔ پھر وہ پاکستانی بھی چیخے گا جس کے امام کے نظام (انقلاب اسلامی) سے آپ نے جنگ مول لی ہے یہاں وہی مثال ہے کہ بیت اللہ پر اگر کوئی مسلمان ملک کی حکومت چڑھائی کرے تو حب الوطنی و مکتب فکر کا کوئی ٹکراؤ نہیں ۔ ولی الفقیہ و امام المسلمین اور اسکا نظام پاکستانی شیعہ کیلئے قبلہ و کعبہ سے کم نہیں ۔ اگر وہ اپنے امام کے دفاع کیلئے بولے تو یہی حب الوطنی ہے۔

Comments